یاد رہیں کہ انٹرنیٹ کا بڑھتا ہوا استعمال اور فریکوئنسی پر تشویش کے شکار سائنس دانوں نے متنبہ کیا ہے کہ کسی ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ سے اس کے انسانی صحت اور ماحول پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کے بعد اور اس بات پر اجازت بھی دینی چاہیئے۔
حال ہی میں دنیا بھر سے 250 سائنسدانوں نے اقوامِ متحدہ میں ایک پٹیشن دائر کری ہے جس میں اسمارٹ فون سے تیزی سے نکلنے والی ریزیز اور شعاعوں سے کینسر کے مرض میں منتقل ہونے کا انکشاف کیا گیا ہے۔
اقوامِ متحدہ میں جمع کرائی گئی اس پٹیشن پر عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بھی دستخط کیے تھے، ماہرین نے مزید خبردار کیا ہے کہ اسمارٹ فون یا پھر ریڈیو سے جو تیزی سے نکلنے والی شعاعیں برقی مقناطیسی میدان پیدا کرتی ہیں جو انسانی صحت اور ماحول کے لیے نہایت مضر ثابت ہوسکتی ہے جن میں کینسر کے بڑھتے ہوئے خطرات، خطرناک مالیکیولز کا اخراج، جینیاتی نقصانات، تولیدی نظام کی فعالیت میں تبدیلیاں، سیکھنے اور یادداشت کے عمل میں کمزروی شامل ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فریکوئنسی انسانی صحت کے اعصابی نظام پر اثرا انداز ہو گی جس سے حواسِ خمسہ میں خرابی کا اندیشہ ہے اور یہ انسانی رویوں میں تبدیلی کا شاخسانہ بھی ثابت ہوسکتی ہیں جیسے جھنجھلاہٹ، پریشانی یا غصے میں اضافہ ہونا ہے، ان میں سے کئی امراض فور جی کے ساتھ ہی نمودار ہوچکے ہیں تو فائیوجی میں ان کی ہلاکت خیزی اوربھی زیادہ ہوگی کیوںکہ فور جی، تھری جی سے 10 گناہ تیز تھا تو فائیو جی، فور جی سے ایک ہزار گنا تیزی سے کام کرسکے گا