کسی گاؤں میں پنکو نام کا غریب کسان رہتا تھا وہ کھیتی باری کرکے اپنا گزارا کرتا تھا اس کہ پاس زیادہ کچھ نہیں تھا ایک پرانا مکان ضرورت کا سامان اور کچھ مرغیاں- کسان ہر وقت سوچتا رہتا یا الله میں اتنا غریب کیوں ہوں میرے پاس بھی کچھ پیسے آجائیں تو کتنا ہی اچھا ہو ہر دن اتنی محنت اب برداشت نہیں ہوتی-
ایک دن پنکو نیند سے اٹھا اور مرغیوں کو دانا ڈالنے گیا- اچانک اس کی نظر ایک انڈے پر پڑھتی ہے اور وہ کہتا ہے یہ انڈا اتنا چمک کیوں رہا ہے پہلے تو کبھی ایسا انڈا نہیں دیکھا میری تو قسمت ہی کھل گئی یہ تو سونے کا انڈا ہے میرے الله تو نے میری سن لی اور میری غریبی دور کردی- پنکو اگلے دن اس انڈے کو شہر میں ایک سونار کی دکان پر لے جاتا ہے وہ سنار کو کہتا ہے-
بھائی میرے پاس ایک سونے کا انڈا ہے اور میں اسے بیچنا چاہتا ہوں تم یہ انڈا کتنے میں لو گے یہ تو بہت قیمتی ہے میں اسے ضرور خریدوں گا کسان سنار سے اتنے زیادہ پیسے ملنے وہ انڈا سونار کو دے دیتا ہے اور کسان پیسے دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے پھر سوچنے لگتا ہے واہ میرے مالک میری تو قسمت ہی کھل گئی ہے اتنا پیسہ تو میں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا- مرغی روز ایک سونے کا انڈا دیتی اور پنکو اسے شہر میں بیچ کر اپنے گھر والوں کے لیے بہت سا سامان لے آتا- دھیرے دھیرے وہ کافی امیر ہوگیا اس نے اپنی ضرورت کی ہر ایک چیز خریدلی- ایک روز اس کا ایک دوست اس سے ملنے آیا اور کہنے لگا پنکو بھائی کیسے ہو آج کل تو ایک دم ٹپ ٹاپ ہوگے ہو اتنا اچھا گھر بھی لے لیا ہے کوئی لوٹری لگ گئی ہے کیا- کسان کہنے لگا لوٹری تو بہت چوٹی سی چیز ہے ہماری تو قسمت ہی کھل گئی-
میری ایک مرغی ہے جو روز سونے کا انڈا دیتی ہے اور میں وہ انڈا شہر میں بیچ آتا ہوں- کسان کا دوست کہتا کہ واہ یار تمہاری تو واقعی قسمت ہی کھل گئی ہے- لیکن “تم بہت بیوقوف ہو” سوچو اگر مرغی روز ایک انڈا دیتی ہے تو اس کے پیٹ میں کتنے سارے انڈے ہونگے- تمہاری جگہ میں ہوتا تو ایک دن میں امیر ہوجاتا خیر چلو میں چلتا ہوں مجھے کام پر جانا ہے- یہ کہہ کر اس کا دوست وہاں سے چلا گیا- پنکو پھر اسی بات پر سوچ پڑتا ہے کہ ارے یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں اگلے دن کسان اپنی مرغی کے پاس جاتا ہے تو انڈے کو دیکھ کے کہتا ہے اف ! میرے مالک آج پھر ایک ہی انڈا اب مجھ سے اور انتظار نہیں ہوتا آج میں اس مرغی کا پیٹ کاٹ کر سارے انڈے نکال لوں گا- یہ سوچتے ہی کسان مرغی کا پیٹ کاٹ دیتا ہے اور روتے ہوئے کہتا ہے یہ میں نے لالچ میں آکر کیا کردیا اپنے ہی ہاتھوں سے اپنا ہی نقصان کر دیا اب وه سب چھوڑ چهاڑ کر بیٹھ گیا- اس موقعہ پر اقبال کا شعر یاد آتا ہے اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چهگ گئی کھیت!
تو پیارے دوستو! ہمیں اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ لالچ اچھا نہیں ہوتا کسی کی باتوں میں آنے سے پہلے اپنی عقل کا استمال کرلینا چاہئے- اور یہی وجہ ہے کہ “لالچ بری بلا ہے-”