یہ زمانہ قدیم کی بات ہے- ایک گاؤں جس کا نام راس نگر تھا- وہاں کے لوگ بہت نیک اور اچھے تھے- وہاں پر ایک شخص وقاص رہتا تھا، وہ بہت ہی غریب تھا لیکن ایک بہت ہی نیک انسان تھا، وہ کسان تھا- اور چوہدری صاحب کی زمین پر کام کرکے اپنا اور گھر والوں کا پیٹ پالتا، چوہدری بہت ہی ظالم اور مغرور آدمی تھا- وہ دوسروں سے برا رویہ رکھتا، لوگوں کی دل آزاری کرتا، وقاص کی ایک ہی بیٹی تھی، جس کا نام “کلثوم” تھا وہ چھٹی جماعت کی طالبہ تھی، وقاص کی خوائش تھی کہ اس کی بیٹی اعلی تعلیم حاصل کرے-
ایک دفعہ وہاں ایک فقیر آیا اورچوہدری صاحب کے گھر کو دیکھ کر رک گیا اور وہاں کے نوکر سے پانی کی درخواست کی مگر جب چوہدری صاحب نے فقیر کی آواز سنی تو وہ غصے سے بولے دفعہ ہوجاؤ- اور اس فقیر کی بےعزتی کی- فقیر بہت ہی پیاسا تھا- چوہدری صاحب کا رویہ دیکھ وہ رو پڑا اور وہاں سے آگے چلا گیا- ادھر قریب ہی کھیتوں میں وقاص کام کررہا تھا- فقیر پیاس سے نڈھال تھا کہ اس سے چلا بھی نہیں جارہا تھا – وقاص فقیر کی یہ حالت دیکھ کر دوڑتا ہوا فقیر کے پاس آیا اور قریب ہی درخت کی چھاؤں تلے بٹھایا اور جلدی سے اپنا کھانا اور پانی لے کر آیا اور فقیر کو پیش کیا- فقیرنے پانی پیا اور اس کے بعد کھانا کھایا اور فقیر خوش ہوکر وقاص کو دعا دی کہ الله تمہاری ہر خوشی پوری کرے، یہ کہہ کر وہ فقیر وہاں سے چلا گیا- کچھ دنوں کے بعد ایک دن وقاص کھیتوں میں کام کررہا تھا کہ اس کو ایک چابی ملی، اس نے چابی اپنی جیب میں ڈال لی- جب وقاص اپنے کام سے فارغ ہوکر گھر آیا تو اس نے وہ چابی اپنی بیوی کو دکھائی وہ دیکھنے میں کافی پرانی چابی تھی-
اس نے وہ چابی تکیے کے پاس رکھی اور سوگیا- رات کو اس نے خواب میں دیکھا کہ کھیت کے قریب ایک درخت ہے جس کے تنے کے نیچے ایک صندوق ہے جس کی یہ چابی ہے- صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ سب کچھ بھول چکا تھا- اس نے چابی جیب میں ڈالی اور کلثوم کو اسکول چھوڑنے چلا گیا، اس کے بعد وہ کھیتوں میں چلا گیا جب وہ کام سے تھک گیا تو وہ سانس لینے کے لیے اسی تنے پر آ بیٹھا جس پر اس نے فقیر کو بٹھایا تھا، اس کو سارا خواب یاد آگیا، اس نے جلدی سے زمین کھودی تو وہاں صندوق موجود تھا- وہ صندوق لے کر گھر آیا- اس نے جلدی سے چابی نکالی اور صندوق کو کھولا- جیسے ہی صندوق کھلا سب کے سب حیران ہوگئے تھے اور کیوں نہ ہوتے صندوق قدیم زیورات اور سونے کے سکوں سے بھرا تھا- وقاص کی خوشی کی انتہا نہ رہی – وہ جلدی سے اٹھا اور اشرفیاں اس نے رکھ کر باقی سارے گاؤں میں تقسیم کردیں- وقاص خوش تھا کہ اس کی نیکی کام آئی اور اب ان پیسوں کے زریعے کلثوم کو تعلیم دلانے کی اس کی یہ خواہش پوری ہوجائے گی!