کسی زمانے میں ایک بادشاہ ایک ملک میں حکومت کرتا تھا – وہ ہمیشہ اپنے سر پر پگڑی پہنے رکھتا تھا – بادشاہ کو آج تک کسی نے بغیر پگڑی کے نہیں دیکھا تھا -اس ملک کے لوگوں کو بہت حیرانی بھی ہوتی تھی کے گرمی ہو یا سردی آخر بادشاہ سلامت اپنی پگڑی کیوں نہیں اتارتے – ملک کے بچوں کا انوکھا اندازہ تھا کے شاید ہمارے بادشاہ گنجے ہیں یا انکے سر پر سرخ بال ہے – جنہیں چھپانے کے لیے وہ پگڑی پہنتے ہے -آخر حیرت اور تجسس سے پریشان ہوکر لوگوں نے بالآخر فیصلہ کیا کہ ہم بادشاہ سلامت سے پوچھیں گے کہ وہ یہ پگڑی کیوں پہنے رہتے ہیں -ایک دن لوگوں نے بادشاہ سے سوال کیا کہ بادشاہ آخر اس پگڑی کا راز کیا ہے -بادشاہ نے جواب میں بتایا کہ میں یہ پگڑی اسلیے پہنتا ہوں “اس سے میرا سر اونچا رہتا ہے اور میں ممتاز اور بڑا نظر آتا ہوں” اب جب بچوں کی باری آئی تو بچوں نے بھی اپنا سوال کیا -بادشاہ نے بچوں کا جواب نرم لہجے میں دیتے ہوئے کہا کہا کہ بچوں آپ کے بادشاہ گنجے نہیں ہیں بلکہ میرے بال اتنے سیاہ اور خوبصورت ہےجیسے رات میں آسمان پر تارے چمکتے ہیں ویسے ہی میرے سر پر میرے سیاہ بال چمکتے ہیں – بچوں نے کہا بادشاہ سلامت اگر ایسی ہی بات ہے تو آپ اپنی پگڑی اتار کیوں نہیں دیتے آپ ہمیں اپنی پگڑی اتار کر دیکھائے لیکن بادشاہ نے اپنی پگڑی نہیں اتاری –
بادشاہ کی اصل پگڑی پہننے کا راز یہ تھا کہ بادشاہ کے سر پر سینگ تھے – جس کا علم کسی کو بھی نہیں تھا یہاں تک کہ شہزادہ اور شہزادی کو بھی نہیں –
ایک دن کا ذکر ہے بادشاہ اپنے کمرے میں اکیلا بیٹھا تھا , گرمی سے
پریشان ہو کر بادشاہ نے اپنی پگڑی اتاری ہی تھی کہ اچانک اس کا خادم کمرے میں آگیا اور بادشاہ کے سینگ دیکھ کر چیخنے لگا اور کہا بادشاہ سلامت یہ کیا ہے ؟بادشاہ نے خادم کو تسلی دیتے ہوئے کہا اب یہ راز تم کسی کو مت بتانا یہ ہمارا شاہی راز ہے – ورنہ میرے ہی ملک کے لوگ مجھے انسان نہیں حیوان سمجھنے لگے گے – خادم نے بادشاہ سے وعدہ کیا کہ وہ یہ راز کسی کو نہیں بتائے گا – ابھی اس واقعہ کو کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ خادم کے پیٹ میں درد اٹھا کہ یہ راز کسی کو بتانا چاہیے – اسکی یہ بے چینی دیکھ کر اسکی ماں نے وجہ پوچھی جس پر اس نے بتایا کہ یہ بات وہ کسی کو نہیں بتا سکتا -جس پر اس کی ماں نے کہا چلو ٹھیک ہے تم ایک کام کرو تم یہ بات جنگل میں جا کر ایک درخت کو بتادو جس سے تمہارا پیٹ کا درد بھی ختم ہوجائے گا اور وہ راز راز ہی رہیگا -اس نے ایسا ہی کیا اس نے جنگل میں جا کر یہ سارا واقعہ ایک درخت کو بتا دیا –
کچھ دنوں بعد اس ہی درخت کی لکڑی سے ایک ڈھول بنایا گیا یا جسے ایک ڈھول والے نے خریدا ، ایک شادی میں اسی ڈھول والے کو بلایا گیا اب ڈھول والے نے جیسے ہی ڈھول بجانا شروع کیا تو ڈھول میں سے آوازیں آنا شروع ہوگئیں کہ بادشاہ کے سر پر سینگ ہیں بادشاہ کے سر پر سینگ ہیں -یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی – جب بادشاہ نے ڈھول والے کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ تمہارا ڈھول میں سے یہ کیسی آوازیں آرہی ہے تو اسنے کہا جناب مجھے نہیں پتہ .اسی طرح جب خادم کو بھی بلایا گیا اور پوچھا گیا کیا تم نے کسی کو کچھ بتایا ہے تو خادم نے بھی بولا نہیں نہیں بادشاہ میں نے کسی کو کچھ نہیں بتایا ، بلکہ صرف ایک درخت کو بتایا ہے – بادشاہ نے سوچا اب جب بات سب کو پتہ چل گئی ہے تو حقیقت چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور بادشاہ نے آئندہ پگڑی پہننا بھی ترک کردی اور لوگوں کو بتا دیا کہ یہی وہ راز تھا جس کی وجہ سے وہ پگڑی پہنتا تھا – اور دلچسپ بات یہ ہے کہ لوگوں نے بادشاہ کا مذاق اڑانے کے بجائے اپنے اچھے رویے سے یہ یقین دلایا اصل خوبی نیکی ، رحم دلی اور ایمانداری ہے ، اچھی شکل و صورت کی بنیاد پر کسی کو اچھا قرار نہیں دیا جاسکتا ! –