علی ایک اچھا بچہ تھا ہر بچے کی طرح وہ
بھی بہت حساس تھا روز اسکول جانا، پڑھائی کرنا، گھر واپس اکر بھی پڑھتے رہنا، علی اپنے روز مرہ معمول سے کافی بیزار ہوچکا تھا مگر کیا کرتا، ایسے ہی بور دن گزر رہے تھے کہ اچانک ایک دن اسکول میں پکنک پر جانے کا شور اٹھا- مس عائشہ نے کلاس میں اعلان کیا، “جو بچہ بھی پکنک پر جانا چاہتا ہے وہ تین دن میں پندرہ سو روپے اسکول کے آفس میں جمع کروادے، کیونکہ ہفتہ کے دن پکنک کا پلان ترتیب دیا جاچکا ہے-“
اعلان سن کر علی خوش ہوگیا- پکنک پر جانے کا دل بھی بہت کررہا تھا مگر اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ گھر سے اجازت نہیں ملے گی- دو دن تک وہ اپنی امی کے سامنے ضد کرتا رہا مگر امی نہیں مانیں، ابو نے بھی صاف کہہ دیا کہ اگر امی منع کر رہی ہیں تو علی اسکول پکنک پر نہیں جائے گا- تیسرے دن علی نے امی کو بہت تانگ کیا کہ جو بھی ہو، مجھے اجازت اور پندرہ سو روپے دیں تاکہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ پکنک پر جاسکوں- مگر امی نے اجازت نہ دی-
پکنک پر جانے کا دن جیسے جیسے قریب آرہا تھا، علی کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی- دوستوں کے نت نئے منصوبے اور پروگرام بن رہے تھے اور علی خاموش بیٹھا، ان کے پلان سن رہا تھا-
آخر وہ دن آگیا سب پکنینک پر چلے گئے اور علی گھر پر ہی رہا، اب اس کا کسی کام میں جی نہ لگتا، گھر میں اور اسکول سے واپس آنے کے بعد بھی ہم جماعتوں کے قہقہیاس کی نظروں کے سامنے گھومتے رہتے تھے-
ایک رات کا ذکر ہے جب کافی کروٹیں بدلنے کے بعد اسے نیند نہ آئی تو اس نے ایک منصوبہ بنایا اور فیصلہ کیا کہ اگلے دن اس ور عمل کرے گا- اگلے دن جب امی سو گئیں تو وہ گھر سے باہر نکل آیا اور ایک جانب چلنے لگا- رات کے اندھیرے میں راستوں سے ناواقف وہ اپنے گھر سے بہت دور نکل آیا تھا- تھوڑی ہی دیر میں وہ ایک ایسی جگہ پہنچ گیا جو اس نے اس دن سے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی- آخر چلتے چلتے وہ تھک گیا اور ایک گھر کے دروازے پر بیٹھ گیا، بیٹھے بیٹھے جانے کب اسے نیند آگئی اور وہ بے خبر سوگیا- کچھ دیر بعد فجر کی اذان ہوئی اور لوگ اپنے اپنے گھروں سے مسجد کی طرف جانے کے لئے نلنے لگے- ایک آدمی نے علی کو گھر کے باہر سوتا دیکھا تو جگا دیا اور پوچھا، “بیٹا کیا نماز پڑھنے نکلے تھے؟ چلو اذان ہوگئی ہے-” اب علی ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگا، فجر کی نماز پڑھی اور ایک بار پھر اجنبی راستوں پر چل پڑا- اب دوپہر ہو چکی تھی، عجیب بات تھی اب علی جہاں کہیں تھوڑی دیر سستانے کے لئے بیٹھتا تو آس پاس کے لوگ اسے بہت مشکوک نظروں سے دیکھتے- اس کی حالت سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ بھٹکا ہوا ہے اور اس کے پاس کوئی ٹھکانہ نہیں- تپتی دوپہر آئی اور علی کو شدید بھوک ستانے لگی- اس کی جیب میں ایک روپیہ تک نہ تھا- وہ ایک ڈھابے کے پاس جا کر رک گیا اور اس کے مالک سے روٹی مانگی تو اس نے علی کو خوب جھاڑ پلائی- وہ روتا ہوا وہاں سے چل دیا- ابھی جا ہی رہا تھا کہ اسے ایک پرانا دوست مل گیا جو پہلے علی کے محلے میں رہا کرتا تھا لیکن اب کہیں اور شفٹ ہوگیا تھا- اس نے علی کو اس حال میں دیکھا تو پریشان ہوگیا اور اسے اپنے گھر لے آیا- اس نے علی کو اپنے گھر میں کھانا کھلایا اور مہمان نوازی کی-
مجھے یہ سن اکر حیرانی ہوئی کہ کامران کتنا سمجھدار اور نیک دل ہے- اس نے بتایا، “علی تمہیں پتا ہے، ہمارے گھر کے حالت اچھے نہیں تھے، میں کتنی بار اسکول پکنک پر صرف اس لیے نہیں جا سکا کہ میرے پاس پکنک پر جانے کے لئے پیسے نہیں تھے- لیکن آج سب کچھ ٹھیک ہے اور یہ سب محنت اور صبر سے ہی ہوا ہے- اگر میں بھی برے وقتوں میں ہمت ہار دیتا اور گھر سے بھگ جاتا تو سوچو سب کو کتنی تکلیف ہوتی؟ علی چھوٹی چھوٹی باتوں پر گھر اور خاندان سے ناراض نہیں ہوا جاتا-” یہ سن کر علی کو احساس ہوا کہ وہ غلطی پر تھا اور جو قدم اس نے ناراضی اور غصے میں اٹھایا وہ درست نہ تھا-
تھوڑی دیر بعد کامران اور اس کے ابو، علی کو لے کر گھر پہنچ گئے- علی کے گھر میں سب بے حد پریشان تھے اور علی کو ڈھونڈنے کے لئے پولیس اور محلے والوں کے ساتھ ادھر ادھر چکر لگا رہے تھے- علی کو صحیح سلامت گھر آتا دیکھ کر امی کی آنکھیں بھر آئیں- پہلے پہل امی نے تو خوب ڈانٹا کہ میں کیوں بھاگ گیا- لیکن جب میں نے امی سے اپنی غلطی کی معافی مانگی تو وہ رونے لگیں اور مجھے معاف کرکے گلے سے لگا لیا-
البتہ ابو مجھ سے کافی ناراض تھے، انہیں دکھ تھا کہ میں نے اپنی پریشانی پر ناراضی کا اظہآر کرنے کے بجائے، گھر سے بھاگ جانے کا بدترین قدم کیوں اٹھایا- آخر میں اچھے کام کرکے ابو کو بھی مانا لیا اور ان سے وعدہ کیا کہ آئندہ کسی غلط فہمی میں مبتلا ہونے کے بجائے امی ابو سے بات کروں گا اور وہ بھی میری بات سمجھنے کی کوشش کریں گے-
دوستو! گھر سے بھاگ جانے والا بچہ میں ہی تھا، یہ واقعہ تب پیش آیا تھا جب میں چوتی جماعت میں پڑھا کرتا تھا- آج میں میٹرک کا طالب علم ہوں- گزرے چار سال میں نے دل لگا کر پڑھائی کی ہے اور اس کا صلہ بھی مجھے ملا ہے-
آج اسکول کے ہونہار بچوں میں میرا شمار بھی کیا جاتا ہے- کیونکہ آج میں سمجھ چکا ہوں کہ ہر کام کی الگ اہمیت ہے، میں کھیل کود، تعلیم، دوست، گھر والوں کے ساتھ وقت گزارنا … ہر کام پر مناسب توجہ دیتا ہوں اور اگر کبھی والدین کسی کام سے منع کردیں تو سن لیتا ہوں- باہر کھیلنے جاتا ہوں تو گھر میں بتا دیتا ہوں، وقت پر گھر واپس آتا ہوں-
دوستو! اس کہانی کو بیان کر کے میں آپ سب کو یہ سمجھانا چاہتا تھا کہ زندگی میں جو کام بھی کریں، سوچ سمجھ کر کریں کیونکہ غصہ اور ناراضی میں اٹھایا گیا قدم آپ کو اپنوں سے دور کر سکتا ہے!